Sunday 24 September 2017

سماجی گروہ بندی اور تعلیمی اداروں کا کردار

تعلیم کا حصول ہر بچے کا بنیادی حق ہے- اس میں ہر گز شک کی گنجایش نہیں کہ تعلیم نہ صرف انفرادی طور پہ لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بناتی ہہ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے  اقتصادی اور  سماجی حالات پہ بھی مثبت اثر انداز ہوتی ہے۔ سماجی ترقی کا کوئی بھی پہلو سکول کی جدید اور معیاری تعلیم کے بغیر ممکن نہیں لہٰزا قومی سطح پہ تعلیم کے معیار کو بہتر کئے بغیر اقتصادی اور سماجی ترقی نا ممکن ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے بنیادی تعلیم کی اہمیت کو ہر چیز پہ فوقیت دی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں سماجی اور اقتصادی ترقی کی بنیاد ایک ایسا تعلیمی نظام ہے جو حکومتی سطح پہ مفت اور معیاری تعلیم مہیا کرتا ہے  اور اس نظام تک
ہرسماجی طبقے کی مکمل رسائی ہے۔ 
تعلیمی سہولت کو عام کرنا ہماری کسی بھی حکومت کی ترجیہات میں شامل نہیں رہا اور یہی وجہ ہے کہ تعلیمی پالیسی کو ہم آج تک منظم نہیں کر سکے- مسلسل غفلت کا شکار رہنے کی وجہ سے  سکول کی تعلیم کو ہم نے نجی اداروں اور غیر ملکی امداد پہ چلنے والی تنظیموں کے سپرد کر دیا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے بچے تعلیمی گروہ بندی کا شکار ہیں- دو نمایاں گروہ میں سے ایک وہ ہے جس کو سکول کی تعلیم تک رسائی حاصل ہے اور دوسرا وہ جو مکمل طور پہ اپنے بنیادی تعلیم کے حق سے محروم ہے۔ جو بچے سکول کی تعلیم تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے ہمارے معاشرے کی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں کیونکہ بنیادی تعلیم کا مثبت اور گہرا تعلق افراد کی معاشی ترقی، صحت اور فلاح و بہبود سے ہے اور مل کر یہ سب چیزیں معاشرے کی ترقی کا سبب بنتے ہیں۔ تعلیم سے محروم بچے غربت کی چنگل سے آزادی نہیں حاصل کر سکتے اور یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا ہے۔ غربت سے مراد ایک ایسا معیار زندگی جو بنیادی ضروریات سے محروم ہے اور ان رویوں کا شکار ہے جو انفرادی فلاح و بہبود کے مخالف ہیں۔      
ایک بہت بڑا سماجی طبقہ جواپنے بچوں کے  تعلیمی اخراجات کو باخوبی پورا کر سکتا ہے نجی ادارے کی خدمات حاصل کرتا ہے اور اس کے برعکس شدید غربت کا شکار لوگ بچوں کو مدرسے کی غیر معیاری تعلیم کے سپرد کردیتے ہیں اور ان میں سے بیشتر بچوں کو تعلیم کے حق سے ہی محروم رکھتے ہیں۔ تیسرا وہ طبقہ ہے جو با مشکل تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کی گنجائش رکھتا اوراپنے بچوں کے لئے ایسے نجی سکول کا انتخاب کرتا ہے جو کم سے کم فیس پہ بچوں کو داخلہ دیتے ہیں اور ان سکول تک رسائی حاصل کرنے کے لئے کسی بھی مزید خرچے کی ضرورت نہیں ہوتی- ان سب اقسام میں سرکاری  سکول ایسے ہیں جو والدین کے معاشی حالات کو بلائےطاق رکھ کر بچوں کو تعلیم دیتے ہیں لیکن سرکاری سکول کے مقابلے میں کم فیس والے نجی سکول تک رسائی حاصل کرنا آسان ہے- کم فیس والے نجی سکول ہر شہری گلی اور محلے میں کھل چکے ہیں جہاں غریب طبقے کے لوگ سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے بچوں کو تعلیم دلواتے ہیں۔ اس میں ہر گز شک کی گنجائش نہیں کہ نجی سکولوں نے تعلیم کی ضرورتوں کو پورا کیا اور بہت حد تک اس کے معیار کوبھی قائم رکھا ہے- لیکن نجی ادارے ہر گز قومی سطح پہ تعلیم کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتے۔ غربت کی لکیر سے نچلا طبقہ تو ہر گز کسی بھی قسم کے تعلیمی خرچے کو پورا نہیں کرسکتا لہٰزا عالمگیر سطح پہ مفت تعلیم دینا صرف حکومت کی ذمہ داری ہے-
نجی سکول کسی واحد پالیسی کے پیش نظر فیس اور دیگر تعلیم کے اخراجات کا معیار نہیں بناتے۔ سرکاری پالیسی کے تحت بھی نجی سکولوں کی تشخیص اور نگرانی نہیں کی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ  نجی سکول معاشی سطح پہ سماجی گروہ بندی کرتے ہیں جس میں غریب اور امیر کا فرق بہت نمایاں ہوتا ہے۔ مہنگے نجی ادارے کے سکولوں میں امیر طبقے کے بچے تعلیم حاصل کرتے جبکے کم فیس والے گلی محلے کے سکول یا مدرسے میں غریب طبقے کی نسل پروان چڑھتی ہے۔ سرکاری سکولوں کا معیار اور ان تک مکمل رسائی سماجی اور معاشی تفریق کو پھرپور طریقے سے چیلنچ کرتے ہیں۔ اگر سرکاری سکولوں کا معیار بڑھایا جائے اوران تک رسائی آسان ہو تو ہم ایسا تعلیمی نظام قائم کر سکتے ہیں جس میں امیر اور غریب طبقے دونو کومعیاری اور مساوی تعلیم ملے اور بچوں کو سکول ہی کی سطح پہ ایک ایسے معاشرے سے متاعرف کرایا جائے جہاں ہر معاشی طبقے، رنگ، نسل، مزہب اور زبان سے تعلق رکھنے والے بچے ایک ساتھ  تعلیم حاصل کریں۔  
شدید غربت سے دوچار خاندانوں کا انحصار بچوں کی مزدوری سے حاصل کی گئی رقم پہ ہوتا ہے اور پاکستان میں کئی گھروں میں چولہا جلتا ہی بچوں کی کمائی سے ہے لہٰزا تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم بچے شائد خاندان کے لئے ذریع آمدن تو ہو سکتے ہیں  لیکن سماجی اور اقتصادی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ کا سبب بنتے ہیں۔پاکستان میں بنیادی تعلیم کو قانونی طور پہ آج تک لازمی قرار نہیں دیا گیا ۔ تعلیم کو لازمی قرار دینے کا مطلب ایسی قنانون سازی ہے جس میں 16 سال سے کم عمر بچوں کو مزدوری اور محنت کشی کے لئے استعمال کرنے پہ مکمل پابندی ہو اور 5 سال سے زائد عمر کے بچوں کا سکول میں داخلہ نا کرانا قانوںی جرم قرار دیا جائے- قانونی اقدامات بغیر اقتصادی پیکج اور ریلیف سکیم کے بے معانی ہیں اور شائد یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی بھی حکومت نے قومی سطح پہ تعلیم کو عام نہیں کیا- معاشی سرمائے کو بچوں کی تعلیم کے لئے وقف کرنے کے لئے مکمل پالیسی اور تشخص کی ضرورت ہے- اس کے لئے ضروری ہے کہ قومی سطح پہ ہر بچے کا ریکارڈ ہو اور ہر خاندان کی معاشی حیثیت کے مطابق حکومت لوگوں کو ریلیف پیکج تقسیم کر سکے۔ اکثر ممالک نے غریب بچوں کو سکول میں معیاری اور مفت کھانے کی سکیم دے کربھی غریب طبقے کو سکول کی طرف راغب کیا ہے- اگر ایسے اقدامات سرکاری سکولوں میں منظم طریقے سے کئے جائیں تو ان کے بہت مثبت نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
پاکستان بچوں کا 100٪ تعلیمی حدف حاصل کرنے سے بہت دور ہے۔ پاکستان کے بیشتر مسائل کا حل صرف اور صرف یکساں تعلیم کا نظام ہے جو ہر معاشی طبقے کی دسترس میں ہو۔ اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ نجی سکولوں کو بند کر دیا جائے اور صرف سرکاری سکول بنائے جائیں یا نجی سکولوں کو سرکاری میں ضم کر دیا جائے۔   تعلیم کو عام اور سستا کرنے کے لئے سکرکاری سکولوں کو بڑے پیمانے پھیلایا جائے اور معیار تعلیم کو اس طرح بہتر بنایا جائے کہ ہر سرکاری سکول اپنا معیار بہتر کرنے کا پابند ہو اورمعیار بہتر  نہ ہونے کی صورت میں اس سکول کو بند کر دیا جائے یا دوسرے سرکاری سکول کے ساتھ ضم کر دیا جائے-
جب تک ہم تعلیم کی اہمیت اور سماجی تشکیل میں سکولوں کے کردار کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے اس وقت تک پاکستان کی صورتحال بہتر نہیں ہو گی اور ہم معاشرتی سطح پہ ان سب مشکلات کا شکار رہیں گے جس سے ہمارا مستقبل اور ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل خطرے میں رہے گا۔   

No comments:

Post a Comment